*ٹرانس جینڈر کے نام سے دھوکہ نہ کھائیں*
یہ ٹرانس جینڈر کون ہے؟
یہ ایک مکمل مرد بے.. جسمانی طور پر اس کے اندر کوئی نقص نہیں تھا. شادی کرنے اور اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت سے مالا مال تھا لیکن اس کے اندر نفسیاتی طور پر ایسی خرابی پیدا ہو گئی تھی کہ یہ لڑکیوں کی طرح ناز و ادا دکھانے لگا. یہ لڑکی تو نہیں تھا لیکن اس نے خود کو لڑکی تصور کر لیا.. اس کے اندر ہم جنس پرستی کی علت پیدا ہو گئی..
پاکستان میں سن دو ہزار اٹھارہ میں ایک قانون پاس ہوا جس کے تحت ایسے لوگ جو مرد ہونے کے باوجود خود کو عورت سمجھتے ہیں یا عورت خود کو مرد سمجھتی بے وہ خود کو اپنی من پسند جنس کے طور پر پیش کر سکتے ہیں..
چنانچہ اس نے بھی خود کو ٹرانس جینڈر عورت کے طور پر نادرا کے آفس میں رجسٹر کروا لیا.. اب یہ جسمانی طور پر مرد خود کو ذہنی طور پر عورت ثابت کرکے ٹرانس جینڈر بن چکا بے کیونکہ اسے یہ کرنے کی آزادی اس ملک نے دی ہے. اگرچہ وہ مرد ہے لیکن اگر صرف ذہنی طور پر خود کو عورت سمجھتا بے تو اسے خود کو عورت کے طور پر شو کرنے کے سب ہی حقوق ملنے چاہئیں.. یہ جسمانی طور پر نارمل مرد بے تو ہوتا رہے، اسے کاغذات میں ٹرانس جینڈر عورت کے طور پر سمجھا جائے..
بعض لوگ ہیجڑوں کو ٹرانس جینڈر سمجھ لیتے ہیں. یہ شدید غلط فہمی بے.. ان بیچاروں کو تو کوئی پوچھتا بھی نہیں.
انہیں ہیجڑا کہلانے کے لیے کسی قانون کی ضرورت نہیں. وہ تو جسمانی طور پر ہی ادھورے ہیں.. نامکمل ہیں.. انہیں تو سپریم کورٹ الگ شناخت دے چکی بے..
یہ قانون جسمانی طور پر نارمل لیکن ذہنی طور پر نفسیاتی مریضوں کے لیے بنایا گیا ہے. پاکستان کے سب ہی ی ڈاکٹر چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ اس قسم کے نفسیاتی افراد کا مکمل علاج موجود ہے. وہ دوبارہ ذہنی طور پر نارمل ہو سکتے ہیں تو پھر انہیں ہم جنس پرستی کی طرف راغب کیوں کیا جا رہا ہے؟
یہ نئے بننے والے قانون کی مہربانی بے کہ جسمانی طور پر مکمل مرد خود کو عورت قرار دے کر کسی دوسرے مرد کے ساتھ شادی کر کے دونوں پھر ہم جنس پرستی کی زندگی گزار سکتے ہیں.
ایسا قانون حضرت لوط علیہ السلام کی اس قوم کے اندر بھی نہیں بن سکا تھا جسے اس گناہ کی پاداش میں بدترین عذاب کا نشانہ بنا کر روئے زمین سے اس کا وجود ہی مٹا دیا گیا تھا..
یہ عذابِ الہی کو دعوت دینے کی کوشش کی جا رہی ہے.. یاد رکھیے اس قانون کے ذریعے ہم جنس پرستی جیسے عظیم گناہ کو پاکستان جیسی مسلمان ریاست میں جائز قرار دے دیا گیا ہے.. اور سب ہی پاکستانی یا تو لاعلمی کی وجہ سے خاموش ہیں یا پھر جبراً خاموش کروا دیے گئے ہیں.. ان ہم جنس پرستوں کے لیے آسانی پیدا کر دی گئی ہے کہ جس طرح چاہیں یہ اپنے من پسند گناہ کا سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں..
حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں کچھ لوگ ایسے تھے جو اس گناہ سے شدید نفرت کیا کرتے تھے. وہ لوگ آواز بھی اٹھاتے تھے. شور بھی مچاتے ہوں گے. احتجاج بھی کرتے ہوں گے. کمزور اور کم ہونے کے باوجود اپنے حصے کا کام کرتے ہوں گے. اللہ تعالیٰ نے انہیں اس عذاب سے بچا لیا.. وہ دنیا اور آخرت میں بھی اللہ کی پکڑ سے بچ گئے اور جنت میں اپنا گھر بنا چکے تھے.. فتنوں کے لحاظ سے یہ بہت مشکل ترین وقت بے.. اب حق کی آواز بلند کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے.. اس گناہ کا سب میڈیا والوں کو علم بے لیکن انہیں روزی روٹی کے شکنجے میں اس طرح جکڑ دیا گیا ہے کہ ان کی روحیں بھی قید ہو گئی ہیں.. ضمیر مر گئے ہیں،، آواز نہیں اٹھا سکتے..
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے کہ گناہ کے خلاف زبانی کلامی آواز اٹھانے والوں کا ایمان دل میں برا کہنے والوں سے ایک درجہ اوپر کا ہوتا بے..
میں کوشش کرتا رہوں گا کہ اپنے آپ کو ایمان کے اس درجے پر لازمی قائم رکھوں.. جس میں صرف دل میں برائی کو برا نہ کہا جاتا ہو بلکہ برائی کے خلاف آواز بلند کی جاتی ہو..
یاد رکھیے اور کسی غلط فہمی میں مت رہیے کہ عذاب صرف پرانی قوموں پر ہی آیا کرتا تھا. پتھر صرف انہی پر برستے تھے. چہرے صرف انہیں کے مسخ ہوتے تھے. نہیں ایسا نہیں ہے. یہ شدید غلط فہمی بے.. نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک حدیث میں یہ بھی فرمایا ہے کہ جب گناہوں کا یہ عالم ہوگا تو انتظار کرو تیز آندھیوں کا، آسمان سے پتھروں کے برسنے کا، چہرے مسخ ہونے کا…اور زمین میں دھنسائے جانے کا…
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حصے کا کام کرنے کی توفیق اور ہمت عطا فرمائے۔آمین.



No comments:
Post a Comment